| فراق رت میں ہوئی جب ملال کی بارش |
| انہی دنوں میں ہوئی پورے سال کی بارش |
| یہ گلستانِ تخیل فنا نہ ہو جائے |
| زمینِ فکر پہ برسا جمال کی بارش |
| ترے سکوت سے چرکے لگیں سماعت پر |
| ترے کلام سے ہو اندمال کی بارش |
| اثر کے پھول مسلسل کھلائے جاتی ہے |
| مری غزل پہ کسی کے خیال کی بارش |
| ہمارے جسم کی کھیتی فنا نہ ہو جائے |
| کبھی کبھی تو عطا ہو وصال کی بارش |
| میں چوم لوں گا اسے ، لاجواب کر دوں گا |
| وہ مجھ پہ جونہی کرے گی سوال کی بارش |
| جو ان کے نام کو سن کر درود پڑھتا ہے |
| کبھی نہ برسے گی اُس پر زوال کی بارش |
معلومات