| نہ سمجھ کہ کوئی میرا یہاں آسرا نہیں ہے |
| نہ یوں زعم ناخدا کر مرا کیا خدا نہیں ہے |
| غمِ عشق کا تسلسل کوئی سلسلہ نہیں ہے |
| کوئی ابتدا نہیں ہے کوئی انتہا نہیں ہے |
| ہے سماعتوں میں ہلچل پہ کوئی صدا نہیں ہے |
| بڑی تیز بارشیں ہیں پہ کوئی گھٹا نہیں ہے |
| گو بجا تو کہہ رہا ہے کہ تو اب خفا نہیں ہے |
| مرے دل کی دھڑکنوں کی مگر اب صدا نہیں ہے |
| تری کیا کروں تمنا تو ہے خواہشوں سے بڑھ کر |
| مجھے خواہشوں سے بڑھ کر کبھی کچھ ملا نہیں ہے |
| تری اک ادا کے سو سو گو نکلتے ہیں معانی |
| ہو گماں جفا کا جس پر وہ تری ادا نہیں ہے |
| مجھے میری مغفرت کا گو نہیں کوئی بھروسہ |
| پہ ہے ایک اشک باقی جو ابھی ڈھلا نہیں ہے |
| میں سمجھ سکوں تو کیسے تری ذات کا فسانہ |
| ابھی تک تو تو بھی خود سے ہوا آشنا نہیں ہے |
| لگا رہتا ہے نہ جانے مرے دل کو کیوں یہ دھڑکا |
| کہیں ہو نہ جاۓ اب تک جو کبھی ہوا نہیں ہے |
| ہوا کچھ نہ ہم کو حاصل غمِ عشق کے صلے میں |
| مرے ہم کہ جن کی خاطر انہیں دکھ ذرا نہیں ہے |
| نہ تلاش کر مجھے تو تجھے مل نہ پاؤں گا میں |
| کہ عدم کے راہیوں کا کوئی نقشِ پا نہیں ہے |
| کہ کوئی علاج اس کا بھلا موت کے سوا ہے |
| مرے درد کی جہاں میں کوئی بھی دوا نہیں ہے |
| کہاں اٹھ کے چل دۓ تم میں غزل تمام کرلوں |
| کہ ہے ایک شعر باقی جو ابھی کہا نہیں ہے |
معلومات