| زوق آسودگی کار سبب تک پہنچے |
| رہ گزر ہے وہی جو کُوئے طرب تک پہنچے |
| عشق پھر عشق ہے پَیرایَہ اظہار نہیں |
| کام یہ جذبہ دل کا ہے طلب تک پہنچے |
| غیر معلوم سے حالات میں ہے شمع حیات |
| جانے کیا حال گزر جائے لو جب تک پہنچے |
| ہم سے شاعر کا تو غصہ ہے فقط کاغذ تک |
| غصہ شاہ تو نہیں ہے جو غَضَب تک پہنچے |
معلومات