| "کشتی کے مسافر نے سمندر نہیں دیکھا" |
| حالات کے طوفاں سے گزر کر نہیں دیکھا |
| جس گھر کے لیے ہم نے وطن چھوڑ دیا تھا |
| مدت ہوئی ہے لوٹ کہ وہ گھر نہیں دیکھا |
| کرتا ہے بڑے شوق سے اڑنے کا تقاضا |
| دل جیسا حسیں کوئی کبوتر نہیں دیکھا |
| جس دن سے مسلسل ہے مری نیند ادھوری |
| انکھوں نے کسی خواب کو بن کر نہیں دیکھا |
| مزدور تھکن اوڑھ کے سو جائے گا عاصم |
| اس نے کبھی آرام کا بستر نہیں دیکھا |
معلومات