| غلطی سے بھی کوئی فیصلہ بجا نہ ہوا |
| یہی تو دکھ ہے کہ اپنا کوئی گلہ نہ ہوا |
| عجیب بھول تھی، خود کو سمجھ لیا سب کچھ |
| مگر حیات کا ہم سے حق ادا نہ ہوا |
| ہم اس فریب میں جی اٹھے کہ منزل قریب |
| کھلا یہ تب کہ جب کوئی نقشِ پا نہ ہوا |
| یہ کم نہیں کہ ہمیں زندگی نے دھوکا دیا |
| قصور اپنا تھا، ہم سے ہی التجا نہ ہوا |
| چلے تھے راہِ طلب پر، مگر یہ کیا حاصل؟ |
| سفر تمام ہوا، درد آشنا نہ ہوا |
| بہت سنبھل کے چلے تھے کہ لغزشیں نہ ہوں |
| مگر خطا ہی مقدر تھی، ماجرا نہ ہوا |
| خطا ہی درسِ حقیقت بنی ندیمؔ کے لیے |
| وگرنہ زیست کا مفہوم کچھ جدا نہ ہوا |
معلومات