| اے نوائے آگہی اے شاعرِ فطرت شناس |
| آفتابِ ملک و ملت! پیش کرتا ہوں سپاس |
| اے مرے اقبال کچھ احوال کہنا آج ہے |
| فکر تیری کیوں پنپنے سے یہاں محتاج ہے |
| ہم ترے افکار کیسے جانتے مجبور تھے |
| قوم نے سمجھے نہیں کچھ،رہبروں سے دور تھے |
| ہم غلامی کے نشے میں اس قدر مخمور ہیں |
| ایک رنگیں دام میں پھنسے ہوئے طیور ہیں |
| اب تو مشکل میں بھی ہم جھکتے نہیں سوئے حجاز |
| امتِ مسلم نشاط و عیش میں مصروف ہے |
| طرزِ شاہی میں جہانداری کا فن موقوف ہے |
| اس لیے اقوال تیرے زیرِ غور آئے نہیں |
| ان پہ مشکل تھا عمل سو کام میں لائے نہیں |
| پانچ دس اشعار پر ہی کر لیا ہے اکتفا |
| ترجمہ کر دے کوئی تو پڑھ لیں گے بانگِ درا |
| ارمغاں ہو یا زبور و ضرب یا ،جبریل ہے |
| کس نے ان کو پڑھ کے دیکھا ان کی کیا تفصیل ہے |
| کیا دیا پیغام ہم کو بعد میں سمجھائیں گے |
| ایک دو صدیوں میں ان کے نام کھولے جائیں گے |
| فکرِ فردا ہو یقیں محکم ہو خنجر تیز ہو |
| اور خودداری سے ہر اک جام بھی لبریز ہو |
| بھائی چارہ ہو اخوت ہو محبت عام ہو |
| ہر جواں شاہین ہو پرواز اس کا کام ہو |
| یہ ادق سے استعارے تو بڑے دشوار ہیں |
| آپ کی باتیں ہیں مشکل اس لیے بے کار ہیں |
| سوچ بھی اپنی نہیں ہے ذہن بھی بیمار ہے |
| وقت کا بھی مسئلہ ہے فہم بھی درکار ہے |
| آپ اپنی سوچ لے کر کوچ یاں سے کیجیے |
| آپ کو جو مانتے ہیں ان کو منزل دیجیے |
| طائرِ لاہوت فکرِ رزق سے معتوب ہیں |
| یہ غنیمت ہے کہ اب تک تم سے دن منسوب ہیں |
| صمیم صوفی |
معلومات