سحر تیرگی کو تنویر بنا دیتی ہے
روشنی عکس کو تصویر بنا دیتی ہے
ہم تو کاغذ پر قلم رکھ کے چلاتے ہیں فقط
آگہی علم کی تحریر بنا دیتی ہے
زندگی کو تو گزرنا ہے بہر رنگ مگر
اس کو تاریخ اساطیر بنا دیتی ہے
جب تمنا کو میسر نہ ہو توفیق عمل
زندگی یاس کو تقدیر بنا دیتی ہے
خواب دکھلاتی ہے فطرت تو ہمیں جینے کا
اور دکھ درد کو تعبیر بنا دیتی ہے

44