| اس شام سے لے کر قصے کچھ |
| ان درد و الم کے حصے کچھ |
| ایک اور فسانہ لکھ بیٹھا |
| کچھ روگِ جہاں اور جزبے کچھ |
| کچھ ایسے بھے تھے لفظ لکھے |
| تھے جن کو دیکھے روئے کچھ |
| کچھ ایسے بھی تھے مصرعے یوں |
| تھے ہم بھی جن پر سسکے کچھ |
| کچھ ارمانوں کا بھی ذکر ہوا |
| کچھ بکھرے اور تھے ٹوٹے کچھ |
| کچھ مستقبل کی باتیں تھی |
| کچھ سپنے تھے اور وعدے کچھ |
| میں نے تھوڑا پیچھے وقت کیا |
| میں ٹوٹا وا تھا تب سے کچھ |
| میں نے خوشیوں کو بھی یاد کیا |
| پر ان کے بس تھے شکوے کچھ |
| میں لکھتے لکھتے تھک گیا جب |
| تو صفحے پہ دیکھے نقشے کچھ |
| کچھ کالک تھی کچھ شکنیں تھی |
| اور خون کے بھی تھے دھبے کچھ |
| کچھ آنسو بھی مل بیٹھے ان سے |
| تھے لفظوں میں بھی ڈھلکے کچھ |
| وحشت کے عالم میں دیکھے |
| تھے ماضی کے بھی پنے کچھ |
| کچھ ان کو جن کو پا نا سکا |
| کچھ کھوئے وے سے بچھڑے کچھ |
| جب شام ڈھلی تو پاس مرے |
| تھی غزل بس اک اور مصرعے کچھ |
معلومات