جو شاخ سے ٹپکا وہ لہو تازہ نہیں ہے
مرجھائے ہوئے گل کو یہ اندازہ نہیں ہے
الفت کی چمک چہرے پہ رقصاں ہے مسلسل
اس کے رخ تاباں پہ کوئی غازہ نہیں ہے
دل درد کے گن گاتا ہے یہ درد ہے کیسا
یہ عشق کی جرات کا تو خمیازہ نہیں ہے
کس طرح گزرتے ہیں شب و روز ہمارے
اس کا تمہیں شاید ابھی اندازہ نہیں ہے
ہے قبر کی مانند گھٹن شہر میں ہر سو
لگتا ہے کسی گھر میں بھی دروازہ نہیں ہے

2