| سنگ کی زد پہ سہی آئینہ خانے میرے |
| ہرگز آسان نہیں عکس مٹانے میرے |
| مجھ سے ملتے ہی نہیں یار پرانے میرے |
| کیا اُنھیں بھول گئے سارے ٹھکانے میرے |
| کب تلک سہتا گرانی کے میں چابک تن کر |
| بوجھ غربت کا بڑھا جھک گئے شانے میرے |
| روبرو میرے نہ لو نام بھی ہر جائی کا |
| پھر سے ہوتے ہیں ہرے زخم پرانے میرے |
| ہاں کبھی پھول یا خوشبو بھرے خط ہوتے تھے |
| اب تو رہتی ہیں کتابیں ہی سرہانے میرے |
| چھوڑ بیٹھے ہو تو اب چھوڑ دو پیچھا میرا |
| یاد کیوں آتے ہو اب دل کو دکھانے میرے |
| اس کے بدلے ہوئے تیور کا سبب اب جانا |
| جا کے ملتا تھا رقیب اس سے بہانے میرے |
| ظلمت زیست میں اُترا تھا اُجالا سا جو |
| لگ گیا وہ ہی دیے گھر کے بجھانے میرے |
| وصل کی شب جو کھلیں بند قبا کی گرہیں |
| ہوش سب چھین لئے ہوش ربا نے میرے |
| جاں کے مخزن میں دھڑکتا ہے خزینہ دل کا |
| کوئی آتا ہی نہیں دل کو چرانے میرے |
| جانے کس سحر سے سویا ہے مقدر یا رب |
| بھیج قسمت کی پری بخت جگانے میرے |
| وہ ہے ستار ، پڑھوں شکر کا کلمہ ہر دم |
| عیب مستور جو رکھے ہیں خدا نے میرے |
| پوری کرتا ہے خدا ساری مرادیں میری |
| رب سے مانگا ہے اسے دستِ دعا نے میرے |
| میرے ماں باپ کا سایہ تھا مرے سر پہ سحاب |
| وقت نے چھین لئے رشتے سہانے میرے |
| اُس نے چھوڑا نہ کبھی طرزِ تغافل کو سحآب |
| جس سے منسوب ہوئے سارے فسانے میرے |
معلومات