| اس کے سانچے میں ڈھل رہا ہوں میں |
| اپنی حد سے نکل رہا ہوں میں |
| / |
| کتنے ہفتوں کے بعد یاد نہیں |
| گھر سے باہر نکل رہا ہوں میں |
| / |
| وقت کے تپتے ریگزاروں میں |
| کتنی صدیوں سے چل رہا ہوں میں |
| / |
| ان مچلتی مچلتی راہوں پر |
| گرت گرتے سنبھل رہا ہوں میں |
| / |
| ذات اندھیارے میں ندامت سے |
| کیسے کانٹے نگل رہا ہوں میں |
| / |
| یونہی قصے سناتے جاؤ تم |
| ناصحو! ہاں بہل رہا ہوں میں |
| / |
| عمر بھر میں جسم جسم پھرتا رہا |
| خود میں بس اک دو پل رہا ہوں میں |
| / |
| میں وہی ہوں ازل سے جو تھا مگر |
| لمحہ لمحہ بدل رہا ہوں میں |
| / |
| نہ دھواں ہے کہیں نہ ہے کہیں راکھ |
| آگ میں ایسی جل رہا ہوں میں |
| / |
| دیکھ کر اس گلابِ حسن کو ہائے |
| اک کلی کو مسل رہا ہوں میں |
| / |
| اس رخِ حسن کی تمازت میں |
| برف جیسے پگھل رہا ہوں میں |
| / |
| آتی ہے چاروں اور اس کی صدا |
| جانے کس اور چل رہا ہوں میں |
| / |
| میں نہیں رکھتا منزلوں کی فکر |
| چل رہا ہوں تو چل رہا ہوں میں |
| / |
| پہلے تھی اس جہاں میں ویرانی |
| اب یہاں پھول پھل رہا ہوں میں |
| / |
| اس کی یادوں کی چاندنی شب میں |
| گھر کے چھٹ پہ ٹہل رہا ہوں میں |
معلومات