| ۔۔۔۔ غزل ۔۔۔۔ |
| اک شبنمی سا شخص عجب گھات کر گیا |
| دل میں اُتر کے زخمی مری ذات کر گیا |
| برگِ خزاں نصیب ، گلابِ خیال شُد |
| یعنی بہارِ عشق کو آفات کر گیا |
| گُل ہاے رنگ و نور تھے راہوں میں منتظر |
| آیا نسیم بن کے ، مگر ہاتھ کر گیا |
| چشمِ ترم شکستہ نگاهی بہ جا گذار |
| آہِ فسردہ در دلِ حالات کر گیا |
| لب ہائے خامشی کو سخن سونپ کر گیا |
| دریا کو تشنہ رکھ کے کرامات کر گیا |
| راہوں میں جس کی میں نے اُجالے بکھیرے وہ |
| شائم حسیں سحر کو مری رات کر گیا |
| شائم |
معلومات