اپنے من میں اتنا اترا، اترا جنتا جا سکتا تھا
لیکن اس دلدل کے اندر کتنا اترا جا سکتا تھا
یہ سب تو ممکن تھا جاناں خود سے بچھڑا جا سکتا تھا
لیکن تیری چاہت سے منہ کیسے پھیرا جا سکتا تھا
سارا گاؤں تیرا پاگل اور میں تنہا شہری بابو
سچ کہہ دے پھر میرے دل کا کیسے دھڑکا جا سکتا تھا
اجلے اجلے دن سے روشن، کالے کالی راتوں جیسے
دکھ سکھ کے ان سب لمحوں کو کیسے بھولا جا سکتا تھا
مانا اس کو تھا دنیا کے طعنے قصے باتوں کا ڈر
لیکن پھر بھی سب سے چھپ کر خوابوں میں آ جا سکاتا تھا
اس دنیا نے ان کو جھوٹے ملغوزوں میں لا پھینکا ہے
جن کے سچ کی سانسوں کو خوشبو میں گھولا جا سکتا تھا
جس کے آگے چندا تارے سورج پھیکے پڑ جاتے ہوں
اس کے خال و خد کو کیسے یک ٹک دیکھا جا سکتا تھا

93