| عشق میں سارے اسی انعام کے مالک بنے |
| ہر قدم تہمت لگی ، آلام کے مالک بنے |
| اہلِ الفت نے غزل لکھی ، دلوں میں گھر کیا |
| اہلِ زر تو مال سے اجسام کے مالک بنے |
| نام رکھا اپنی بیٹی کا اسی کے نام پر |
| اس طرح ہم کم سے کم اس نام کے مالک بنے |
| جن کو اپنا بولتے تھکتی نہ تھی میری زباں |
| غیر کیسے ان لبوں کے جام کے مالک بنے |
| جس میں آتی اس عدوئے جان کی تصویر ساتھ |
| کیوں نہ ہم ایسے کسی پیغام کے مالک بنے |
| آپ کی ہر بات مانی ، ہر ستم ہنس کر سہا |
| اور بدلے میں فقط الزام کے مالک بنے |
| آپ ہم شیشہ گروں کی سادگی تو دیکھیے |
| پتھروں کے شہر میں کس کام کے مالک بنے |
معلومات