| بڑے ہی کم ہیں رشتے جو قُصور سے بگڑتے ہیں |
| بگڑتے ہیں تو ذہن کے فُتور سے بگڑتے ہیں |
| خیال کے بَھنور میں کود جانا بات بات پر |
| تَعَلَُقات تو اِنھی اُمور سے بگڑتے ہیں |
| جو ہو نہ حُسنِ ظن دِلوں میں وَسوَسے پَنَپتے ہیں |
| حَسَیں چَمَن تو ایسے ہی صُدور سے بگڑتے ہیں |
| ہمیشہ ہی دُرُست جانے جو بھی اپنی سوچ کو |
| گھرانے ایسے صاحِبِ غُرور سے بگڑتے ہیں |
| سمجھ نہ آئے دین جس کی عقل میں عجیب ہے |
| وہ بے لگام تو اِسی شُعور سے بگڑتے ہیں |
| دِلوں کو مومِنِین کے شِفا مِلے کتاب سے |
| قُلوبِ مُنکِراں اِسی ہی نُور سے بگڑتے ہیں |
| سلام زیرکؔ اُن کو کر جو زیر نفس کو کریں |
| تمھارے جیسے نقص کے ظُہور سے بگڑتے ہیں |
معلومات