دنیا میں دھاک بیٹھی خدا کے پیام کی
حیرت میں پڑ گئی ہے فصاحت تمام کی
اُس وقت تو عرب میں فصاحت کا دور تھا
یہ بھی تھی وجہ ان کے اک اوجِ مقام کی
نازِ سخن میں سب کو سمجھتے حقیر تھے
پختہ زباں وہاں جو تھی سادہ عوام کی
تختی لگی جو کعبے پہ رب کے کلام کی
وقعت رہی نہ کچھ بھی کسی کے کلام کی
سوچوں میں پڑ گئے سبھی شاعر بڑے بڑے
اور فکریں پڑ گئیں انہیں اپنے دوام کی
اعجاز مصطفیٰ کو خدا کی طرف سے تھا
ظاہر ہے شان اس سے بھی خیر الانام کی
فریاد سن لیں اب تو نکمے جلال کی
اس کو دیں بھیک پیارے نواسوں کے نام کی

0
5