| اپنی سوچوں سے گر ہم با خبر ہوتے |
| خود کی طرح نا ہوتے جانے کدھر ہوتے |
| بے سر و ساماں اس وادیٔ وحشت میں |
| پھر رہے ہوتے ایسے کہ جیسے گھر ہوتے |
| اپنے بے چین خیالاتوں کی جہنم میں |
| کچھ بے سطر سے اسباقوں کی نظر ہوتے |
| ویراں شہر کے اک انجان نِگر پر |
| ہم کسی بے جاں سے گلشن میں شجر ہوتے |
| کتنا ہی ہم سے یہ وفائیں نبھ پاتی |
| ہوتے بھی تو آخر کو ایک بشر ہوتے |
| اپنے زنداں ہی سے وابستہ اسیروں کی طرح |
| خود کے ہی درمیاں ہم پھر ایک عمر ہوتے |
| ہم محفل میں قدم رکھ پاتے گر اُن کی |
| الجھے رہ جاتے ہم اُدھر ہی جدھر ہوتے |
| وہ تو ان کی عنایت توڑ دیا سب کچھ |
| گر ہم رکھتے دل تو در بدر ہوتے |
معلومات