| سِکے کے دوسرے رُخ پر ہم ہیں |
| کس برابر میں لو بیٹھے ہم ہیں |
| تیرگی بھر ہے چکی دم اپنا |
| نئی اُمید کی صورت ہم ہیں |
| آسماں آج ہے نازاں دیکھو |
| ہٹ کے مجمع سے کوئی سَر ہم ہیں |
| شہرتو خوف زدہ ہے اتنا |
| واللّہ! آزادی کے خوگر ہم ہیں |
| ایک پیشانی ہے جو جھکتی نہیں |
| ہے خودی اور مُحافظ ہم ہیں |
| خوف سے کام چلاتے ہیں وہ کیوں؟ |
| شوق اپنے کے ہی مارے ہم ہیں |
| ہے بغل گیر تمنّا ایسی |
| فکرِ فردا سے مُبرا ہم ہیں |
| زر، زمیں اور غمِ جاناں کے |
| دائرے ہوں تو ہوں، مرکز ہم ہیں |
| سانپ کب آستیں کے ہیں مرتے |
| اے کرم خوردگی، آجز ہم ہیں |
| زندگی قید نہیں تو ہے کیا؟ |
| اور اسیری میں بھی زندہ ہم ہیں |
| ہو تغیر کہ سُکوں کے نقشے |
| جمع خاطر، متحمل ہم ہیں |
| موت سے ڈرتے ڈراتے ہو کیوں؟ |
| اُس طرف پردہ اجل بھی ہم ہیں |
| زیرِ پا رُلتے گھروندے ریگی |
| فکرِ پختہ سے مُزیّن ہم ہیں |
| ہیں پشیمان مصاحب بے حد |
| روز و شب سر کہاں دھنتے ہم ہیں؟ |
| رنگ کیا چال ہوا کی ہے کیا؟ |
| دیکھتے بادِ نُما سے ہم ہیں |
| منزلیں راستے، گم ہیں پھر کیا؟ |
| قُطب تارا وہ اُفق پر ہم ہیں |
| جسموں کے بار تلے ہیں مدفن |
| "قم!" اے شہرِ خمو شاں، یہ ہم ہیں |
| نقل در نقل کتابوں میں ہیں |
| اپنے پیغام میں زندہ ہم ہیں |
| وہ کہ ہیں پیچھے پڑے لفظوں کے |
| گفتگو آنکھوں سے کرتے ہم ہیں |
| کُہنہ مَعیار ہیں، شَجرہ، شُہرہ |
| علم و حکمت سے مُنور ہم ہیں |
| کس قدر دل نشیں اور جاں پرور |
| بات کی جیسے سخن ور ہم ہیں |
| زخم خنداں ہو کہ غم پوشیدہ |
| مِؔہر تو رکھتے سدا مرہم ہیں۔ |
| -----------٭٭٭----------- |
معلومات