| خود رفتگی شوق میں چلتے ہیں ڈگر اور |
| منزل کا نشان اور ہے رستے کا سفر اور |
| اک بوجھ بڑھاتا ہی چلا جاتا ہے اک سال |
| بڑھ جاتا ہے جب بوجھ تو جھکتی ہے کمر اور |
| ہے کار گہہ زیست کا آئین ضرورت |
| ہو جائے کوئی بند تو کھل جائے گا در اور |
| اک صبح ہمیں دیتی ہے تحفے میں اک شب |
| پہناتی ہے دنیا اسے مفہوم مگر اور |
| مڑ کر جو کبھی ہم نے طوالت پہ نظر کی |
| دل بول پڑا اور سفر اور سفر اور |
| ہر بات میں ہوتا ہے تضاد لب و دیدہ |
| ہوتی ہے خبر اور تو بنتی ہے خبر اور |
| یہ زیست بھی پیچیدہ مراحل ہے اے شاعر |
| اے کاش مل جاتی کوئی راہ مفر اور |
معلومات