احباب کی نذر
محسوس درد ِ دل تو ہوا بے کراں نہ تھا
تکلیف تھی ضرور مگر نیم جاں نہ تھا
محظوظ لوگ ہو نہ سکے وعظ سے ترے
تقریر میں تری ذرا زورِ بیاں نہ تھا
موضوع گفتگو بنی تھی ذات جب تری
اُس وقت یار اُن کے میں تو درمیاں نہ تھا
اب راز راز ہی نہ رہا افشا ہو گیا
اس شہر میں کوئی مِرا جو راز داں نہ تھا
مُجھ کو خیال تھا تری عزت کا اس لئے
خاموش میں تھا محض کوئی بے زباں نہ تھا
مصروف بے پناہ ملاقات جو نہ کی
لیکن نواز تُجھ سے کبھی بد گُماں نہ تھا
نواز اصطفےٰ

1
107
واہ !
بہت خوب !!

0