ایک اجلا شباب لگتا ہے
روپ وہ لا جواب لگتا ہے
اس کی آنکھوں کا ہو تصور کیا
کھلتا چہرہ گلاب لگتا ہے
نقش اس کا ہے دل پہ رنگیں سا
گو کہ سادہ کتاب لگتا ہے
پیار اس کا ملا ہے جو بے حد
کرم کچھ بے حساب لگتا ہے
گفتگو ہے کوئی نشہ اس کی
جام ، مستی شراب لگتا ہے
اک کہانی ہے ہونٹ کی جنبش
سپنا گویا سراب لگتا ہے
چاہنا اس کا مجھ کو یوں پیہم
چاند کشتی چناب لگتا ہے
گل پہ اوس ہے یا وہ شبنم
صبح کا آفتاب لگتا ہے
سارے ناموں میں نام اک شاہد
سننا مجھ کو رباب لگتا ہے

0
5