| سلگتے آتشیں موسم میں سب نے بے وفائی کی |
| مگر بس اک محمد مصطفیٰ نے مصطفائی کی |
| صلی اللّٰہ علیہ وسلم |
| کبھی جو جان دیتے تھے انہوں نے بھی لڑائی کی |
| خدا کا شکر ہے جس نے مری حاجت روائی کی |
| میں تنہا تھا مرا اس کے سوا حامی نہ تھا کوئی |
| سو پروا بھی کہاں مجھ کو رہی تھی جگ ہنسائی کی |
| اسی کی جستجو لے کر بھٹکتا پھر رہا تھا میں |
| اسی خلاق عالم نے مری عقدہ کشائی کیا |
| کہاں کس موڑ پر چھوڑا خداوندِ دو عالم نے |
| ہر اک انجان رستے پر اسی نے رہنمائی کی |
| ابھی زخمِ جگر سے خون رستا ہے خداوندا |
| ضرورت ہے مجھے تیری و تیری کبریائی کی |
| مقلب تو ہے تو بدلے تو بدلے رنگ دو عالم |
| اگرچہ اب بھی رحمت نے مری ڈھارس بندھائی کی |
| مگر کچھ اور ہی مطلوب ہے مقصود ہے مجھ کو |
| مجھے ہے انتہا مطلوب وہ بھی انتہائی کی |
| نگاہِ یار میں کر معتبر جواد کا چہرہ |
| سنا ہے یار کے گھر تک رسا ہے پارسائی کی |
معلومات