| اب کیا کہوں میں، میرے لئے کیا ہو تم ؟ |
| کالی شب میں جلتا اک نور کا دیا ہو تم |
| دور ہو، مگر دوری ہے کہاں، مری جاں میں |
| رچتی بستی کھلتی خوشبو بنی ادا ہو تم |
| کرتا ہوں میں پروا تیری اگر کبھی سمجھو |
| ہوں قدیم عاشق تیرا، بنے پیا ہو تم |
| ہاں گداز مہکا تیرا بدن بلاتا ہے |
| ابھرا ہوں، یا نکلا ہوں ، قربِ انتہا ہو تم |
| بخشوں گا نہیں، اس کو جان لو، سمجھ لو تم |
| بدلہ لوں گا گن گن کر، مست اُف مزہ ہو تم |
| غصہ کیا ہے کاشف پر ؟ کیوں بھئی؟ بتا دو اب! |
| حملہ تم کرو، تھوپو مجھ پہ، بے خطا ہو تم |
معلومات