| تو ہے پرتو حیرت اب حیرتِ کدہ ہو جا |
| آئینہ سے واصل ہو جذب آئینہ ہو جا |
| جزو منتشر کیوں ہے مل کے ایک جا ہو جا |
| گو خدا نہیں ہو گا، مَظْہَرِ خدا ہو جا |
| رہگزار ہستی میں نقش دوسرا ہو جا |
| وہ نشان منزل ہے تو نشان پا ہو جا |
| عالَمِ حقیقی ہے تیری ذات میں موجود |
| چاہتا ہے گر عالم، اپنی ذات کا ہو جا |
| راہ پر تجسس میں انتہا کو پہنچا ہے |
| لوٹ جانِبِ مرکز پھر سے ابتدا ہوجا |
| ہر وجود قائم بس اپنے خاص مقصد سے |
| تو بھی ایک مقصد ہے مقصد آشنا ہو جا |
| آبروئے ہستی ہے تیری ذات ائے شاعر |
| جسم ہے زمانہ یہ، اس کی تو قبا ہو جا |
معلومات