| اگر دنیا سے میں بیگانہ بن جاؤں تو کیا کیجے |
| جو خود سے بھی اگر انجانہ بن جاؤں تو کیا کیجے |
| تو پیمانے مرے ہاتھوں میں پاکر چھین لیتا ہے |
| اگر چہ میں ہی خود میخانہ بن جاؤں تو کیا کیجے |
| مری ہلکی جھلک کو ہی تو جل کر راکھ ہو بیٹھا |
| سراپا جلوۂ جاناناں بن جاؤں تو کیا کیجے |
| تمہیں انکار کا حق ہے اگر دوں نکتۂ عرفاں |
| سمٹ کر خود ہی جو عرفانہ بن جاؤں تو کیا کیجے |
| تو حیراں دیکھ کر ہے نسبتِ عارف کی مستی کو |
| اگر عارف سا میں مستانہ بن جاؤں تو کیا کیجے |
| خدا کو دور سمجھوں تو کروں سجدوں پہ میں سجدے |
| اگر خود ہی درِ یزدانہ بن جاؤں تو کیا کیجے |
| ذکیؔ تجھ کو ضرورت کیا تھی تو نے راز کیوں کھولے |
| حقیقت سے اگر افسانہ بن جاؤں تو کیا کیجے |
معلومات