| صبحِ دل آرا ہوئی پھیلا اجالا نور کا |
| بارھویں کی رات نے اوڑھا قبالہ نور کا |
| آ گئے ہیں مصطفی لے کر اجالے نور کے |
| مل گیا امید کو آخر سنبھالا نور کا |
| شرم سے گہنا گیا افلاک پر ماہِ تمام |
| ناخنِ اطہر جو مٹھی سے نکالا نور کا |
| بھر گیا عالم کا عالم نور سے جھل مل ہوا |
| تم نے دستِ پاک سے چھینٹا اچھالا نور کا |
| بجھ گیا آتش کدہ کعبہ کے سارے بت گرے |
| دبدبہ دیکھا زمانے نے نرالا نور کا |
| بامِ کعبہ بیتِ اقصیٰ پر ترے جھنڈے گڑے |
| لہلہاتا ہے پھریرا سب سے اعلیٰ نور کا |
| ڈب ڈبا تی ہیں غمِ امت میں چشمانِ حضور |
| گھیرتا ہے عاصیوں کو تیرا ہالا نور کا |
| نورِ ذاتِ کبریا عالم میں تیری ذات سے |
| رکھ دیا شانہ پہ قدسی نے دشالہ نور کا |
| کنجیاں سارے زمانے کی ہیں تیرے ہاتھ میں |
| تیری ٹھوکر نے احد کو کر ہی ڈالا نور کا |
| گر چہ مجھ میں اہلیت نا تھی نگاہِ لطف کی |
| تیرے قرباں سیدی میں بھی تو ہوں پالا نور کا |
| کوثر و تسنیم کے دریا رواں ہیں موج میں |
| پیاس بھرنے کو اے پیاسے جام اٹھا لا نور کا |
| آج کی شب کون ہے جو فضل سے محروم ہو |
| بھر ہی جانا ہے ترا جامی پیالہ نور کا |
معلومات