ہم اتنے ہی قریب ہیں اپنے نصیب کے
جتنا کوئی قریب ہو در سے غریب کے
ہم دور تھے تبھی تو نظر سے اتر گئے
مدعو کیا انہیں کو جو بھی تھے قریب کے
شیریں زباں پہ تلخ بیانی نہیں ہے آج
لگتے نہیں کچھ اچھے ارادے رقیب کے
حق بات بول بول کے اب چومتا ہے کون
پھندے رسن کے اور وہ تختے صلیب کے
دشمن کے دوستوں سے ملانا سنبھل کے ہاتھ
تم دوست بھی کبھی رہے ان کے حبیب کے
سب کے لئے دعا کرو ربِ کریم سے
بھٹکی دعا پہ اب تو کرم ہو مجیب کے
اپنی برائیوں پہ نظر ڈالتا کبھی
دفتر بھرے پڑے ہیں یہاں خود منیب کے

26