| تضمین بر کلام امام احمد رضا خان بریلوی |
| پیشِ حق مژدہ شفاعت کا سناتے جائیں گے |
| """""""'''""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""" |
| راہِ جنت ہم غلاموں کو دکھاتے جائیں گے |
| پل سے گرتوں کو پکڑ کر وہ اٹھاتے جائیں گے |
| ہم گنہ گاروں کو دامن میں چھپاتے جائیں گے |
| پیشِ حق مژدہ شفاعت کا سناتے جائیں گے |
| آپ روتے جائیں گے ہم کو ہنساتے جائیں گے |
| ہاں سنیں گے حشر میں فریاد ہم لاکھوں سے وہ |
| ہوگی کیسی وہ گھڑی جب پھول سے ہاتھوں سے وہ |
| آب کوثر کا پلا کر نور کے جاموں سے وہ |
| دل نکل جانے کی جا ہے آہ کن آنکھوں سے وہ |
| ہم سے پیاسوں کے لئے دریا بہاتے جائیں گے |
| عاشقانِ زلفِ شہ دیکھیں گے وہ حسنِ ملیح |
| ظلمتِ محشر میں چمکے گا یوں وہ نورِ صریح |
| مُنْتَظِر ہَوں سب کہ اب لب کھولے وہ نطقِ فصیح |
| کُشتگانِ گرمیِ محشر کو وہ جانِ مسیح |
| آج دامن کی ہوا دے کر جِلاتے جائیں گے |
| سب ملے گا آج ہم کو بھی قسیمِ فیض سے |
| وہ لٹائیں گے خزانے اب حریمِ فیض سے |
| آج کیسے خالی لوٹیں ہم اَدِیمِ فیض سے |
| گُل کِھلے گا آج یہ اُن کی نسیمِ فیض سے |
| خون روتے آئیں گے ہم مسکراتے جائیں گے |
| غمزدوں کو ہے خوشی اُس دن انہی کا راج ہے |
| سب چلے یہ دیکھنے کیسا سجا یہ تاج ہے |
| فکر کیا اب ہاتھ میں ان کے ہماری لاج ہے |
| ہاں چلو حسرت زدو سنتے ہیں وہ دن آج ہے |
| تھی خبر جس کی کہ وہ جلوہ دکھاتے جائیں گے |
| ہوش میں کوئ کہاں ہے گر خدا چاہے کہ وہ |
| صبر کا اب امتحاں ہے گر خدا چاہے کہ وہ |
| نور کا کیسا سماں ہے گر خدا چاہے کہ وہ |
| آج عیدِ عاشقاں ہے گر خدا چاہے کہ وہ |
| ابروئے پیوستہ کا عالم دکھاتے جائیں گے |
| لوٹنے خیرات آؤ آج وہ دن ہے کہ وہ |
| ہر کسی کو تم بتاؤ آج وہ دن ہے کہ وہ |
| مانگ لو تم بھی امیرو آج وہ دن ہے کہ وہ |
| کچھ خبر بھی ہے فقیرو! آج وہ دن ہے کہ وہ |
| نعمتِ خلد اپنے صدقے میں لٹاتے جائیں گے |
| کہہ رہے ہیں سب ہماری قسمتوں کا پھیر ہے |
| کردیا ہم کو ۔ گناہوں نے زبر سے زیر ہے |
| ہم اٹھائیں کیسے اتنا جو غموں کا ڈھیر ہے |
| خاک ۔ اُفتادو! بس اُن کے آنے ہی کی دیر ہے |
| خود وہ گر کر سجدے میں تم کو اٹھاتے جائیں گے |
| ہے انہی کے در پہ آنے کی صدا معتوب کو |
| دیتے ۔ ہیں رب سے ملا وہ اس طرح محجوب کو |
| کرتے ہیں رتبہ عطا اپنے وہ ہر منسوب کو |
| وسعتیں دی ہیں خدا نے دامنِ محبوب کو |
| جرم کھلتے جائیں گے اور وہ چھپاتے جائیں گے |
| کون دیکھے گا محبت سے غریبوں کی طرف |
| ہر نظر ہے اجنبی ہم سے حقیروں کی طرف |
| ہاں مگر ان کی نظر تو ہے فقیروں کی طرف |
| لو وہ آئے مسکراتے ہم اسیروں کی طرف |
| خرمنِ عصیاں پر اب بجلی گراتے جائیں گے |
| بوجھ عصیاں کا یہاں پر ہم اٹھا کر لائے ہیں |
| اب عمل پوچھیں ملائک ، ٹوٹ کے غم چھائے ہیں |
| اب وہی تو آسرا ہیں جن کے ٹکڑے کھائے ہیں |
| آنکھ کھولو غمزدو! دیکھو وہ گریاں آئے ہیں |
| لوحِ دل سے نقشِ غم کو اب مٹاتے جائیں گے |
| وہ شفاعت کی پہن کر آج خلعت آئے ہیں |
| کھولنے وہ آج مخفی رازِ وحدت آئے ہیں |
| عاصیوں ۔ کے واسطے نایاب نعمت آئے ہیں |
| سوختہ جانوں پہ وہ پرجوشِ رحمت آئے ہیں |
| آبِ کوثر سے لگی دل کی بجھاتے جائیں گے |
| ہے ملا ہم کو انہی کے در سے رفعت کا سُراغ |
| ہاں مہکتے ہیں انہی کی بو سے عالَم کے یہ باغ |
| عظمتیں ان کی کہاں سے پائیں دنیا کے دماغ |
| آفتاب اُن کا ہی چمکے گا جب اوروں کے چراغ |
| صِر صِرِ جوشِ بَلا سے جھلملاتے جائیں گے |
| حمدِ رب جس دم کریں گے وہ بڑے اعجاز پر |
| دم بخود ہوں گے سبھی اس بے مثل انداز پر |
| خود خدا بھی مہرباں ہوگا یوں ان کے ناز پر |
| پائے کوباں پل سے گزریں گے تِری آواز پر |
| رَبِّ سَلِّمْ کی صَدا پر وَجد لاتے جائیں گے |
| ہر طرف پھیلے عدو ہیں جائیں ہم آقا کِدَھر |
| آپ ہی سے آس ہے کیجے کَرَم کی اک نَظَر |
| تاب ہوگی ناں کسی کو پھر جو آئے وہ اِدَھر |
| سرورِ دیں لیجے اپنے ناتوانوں کی خبر |
| نفس و شیطاں، سیّدا! کب تک دباتے جائیں گے |
| کر لیا ہے خود پہ ہم نے ذکرِ احمد کا لزوم |
| جشنِ میلادِ نبی سے ہے جہاں بھر میں ہجوم |
| ہے محمد نام کا یوں کوچے کوچے میں عموم |
| حشر تک ڈالیں گے ہم پیدائشِ مولیٰ کی دھوم |
| مِثل فارس نجد کے قلعے گراتے جائیں گے |
| نور ہے جگ میں ندائے یانبی سے جا بجا |
| مصطفیٰ۔ کی نعت سے ہے بالیقیں دل کی جِلا |
| آج رضوی بھی رضا کے فیض سے کہنے لگا |
| خاک ہوجائیں عَدُو جل کر مگر ہم تو رؔضا |
| دم میں جب تک دم ہے ذکر اُن کا سناتے جائیں گے |
| ::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::: |
| تضمین نگار ابو الحسنین محمد فضلِ رسول |
| چشتی رضوی ، کراچی |
| 25 ربیع الاول شریف1446ھ/ 30 ستمبر 2024 ء |
| رات ایک بج کر اکتیس منٹ |
| ؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛ |
معلومات