| آرزو دل کی مرے دل سے بہاۓ نہ بہے |
| یہ وہ معشوق نُما ہے جو ہٹاۓ نہ ہٹے |
| اول اول کی شناسائی کے کیا کہنے کہ جب |
| کچھ دِکھاۓ نہ دِکھے اور سناۓ نہ سنے |
| رفتہ رفتہ ہوۓ جانا ہے گریزاں آخر |
| ربط کے بعد کا رشتہ تو بناۓ نہ بنے |
| سچ تو یہ ہے کہ تجسس ہے محبت کا حریف |
| جب یہ پورا ہوا تو لطف بڑھاۓ نہ بڑھے |
| یعنی متضاد کا ملنا ہے جنوں کا اخراج |
| یہ وہ بنیاد ہے یارو جو گراۓ نہ گرے |
| پھر کسی دل کا نکالا ہوا، رہروۓِ دشت |
| ایسا گمراہ ہے بیچارہ، بساۓ نہ بسے |
| لاکھ سر پیٹ کے رہ جاتے ہیں دل کے مجبور |
| لاش ماضی کی مری جان اٹھاۓ نہ اٹھے |
معلومات