| یوں ہی بچھڑے ہوئے لوگوں کا خیال آیا |
| دل کو جھٹکا سا لگا آنکھ پہ ساون چھایا |
| اک فقط میں ہی ترے چاہنے والوں میں نہیں |
| جس کو دیکھا سو ترے عشق میں پاگل پایا |
| لوگ آئے تری محفل میں ستارے لے کر |
| میں ترے ہاتھوں کے لکھے ہوئے خط لے آیا |
| آج پھر چاند کو دیکھا تو بہت رویا میں |
| کل بھی تنہا تھا اسے آج بھی تنہا پایا |
| سوچ کر یہ کہ بھرم ٹوٹ نہ جائے اس کا |
| ہم نے اس سے کبھی دانستہ بھی دھوکا کھایا |
| تیری یادوں کا وہ موسم بھی عجب موسم تھا |
| اسی موسم میں مجھے کانٹوں پہ چلنا آیا |
| چاہ کر بھی میں کبھی ڈھونڈ نہ پایا تجھ کو |
| اور کبھی تجھ کو رگِ جاں سے قریں تر پایا |
| اس کی محفل میں جو جائے وہیں رہ جاتا ہے |
| چاند بھی لوٹ کے دائمؔؔ نہیں اب تک آیا |
معلومات