کچھ دن سے اب لبوں پہ کوئی بات بھی نہیں
جیسے کہ خامشی ہے، مناجات بھی نہیں
جو درد ہے تو اس کی شکایت نہیں سہی
یہ غم کوئی خوشی کے لمحات بھی نہیں
کیا اعتبار زلفِ پریشاں پہ کیجیے
جب ایک آنسوؤں کی برسات بھی نہیں
اب دل کی دھڑکنیں بھی صدا دے رہی ہیں کم
یہ عشق ہے، یا دل کی کرامات بھی نہیں؟
کہتے ہیں لوگ حال یہ اچھا نہیں ہے کچھ
اور یہ حقیقتوں کی کوئی بات بھی نہیں
ہر چند دل میں ایک محبت کا راز ہے
لیکن وہ اب کسی کی عنایات بھی نہیں
یادوں میں اس طرح سے گنوانا پڑا ہمیں
جیسے کہ زندگی کا کوئی ساتھ بھی نہیں
کس کس کو اب کہیں کہ محبت کی آگ میں
جل کر ہوئے ہیں خاک، لمحات بھی نہیں
دنیا کے شور میں بھی سنائی نہیں دیا
تھا وہ سکون جو کہ کسی ذات بھی نہیں
دل کی ہر ایک سطر پہ لکھتے ہیں داستاں
مگر اب لفظ بھی کوئی سوغات بھی نہیں
ندیمؔ اب تو صرف یہی سوچتا ہے دل
جیسے کہ اب امید کا اثبات بھی نہیں

0
3