سب چاہتیں یہ ٹوٹا ہوا جام کس کو دیں
دنیا کی بے وفائی کا الزام کس کو دیں
سانسوں کی ڈور پر ہے رواں نام یار کا
دے کے لہو چراغ کو اب شام کس کو دیں
ساری کٹی ہے عمر یونہی جاگتے ہوئے
آنکھوں کے خواب پھر ترے پیغام کس کو دیں
پہنچا نہیں ہے عشق مرا اس مقام تک
زمزم کو پی کے جامۂ احرام کس کو دیں
یارو صبا سے تم کہو ہیں کچھ اداس ہم
مرجھائے گل ہیں قبر کے اکرام کس کو دیں
حسرت سے دیکھتے ہیں کھڑے آج بھی انہیں
برسوں کے منتظر یہ در و بام کس کو دیں
آخر خیال اپنا رکھے گا جہاں مگر
شاہد خوشی کے بدلے میں انجام کس کو دیں

0
7