پے در پے مٹا رہا ہے مجھ کو
اب ہجر یہ کھا گیا ہے مجھ کو
اک تیری ہی آرزو سے زاٸد
بتلا مری جو خطا ہے مجھ کو
اس عشق میں کیوں وفا بھی کر کے
ملی یہ فقط سزا ہے مجھ کو
تھی دید ابھی تلک میسر
سوچا یہی اک دوا ہے مجھ کو
ساحل اسی شہر میں وہ تنہا
اب چھوڑ کے بس چلا ہے مجھ کو
عمر احسان ساحل

0
50