ستم کی یہ بھی حد ہے، چھوڑا آشیانہ، ہائے دل
کچھ نہ سمجھا تیرے فریبِ زمانہ، ہائے دل
یہ خودی کی بے بسی، یہ بے وفائی کا زوال
تیری فرقت میں ہے یوں نالہ و بہانہ، ہائے دل
جس کو سمجھا تھا ہم نے اپنے زخموں کا مسیحا
اُسی کا وار ہے سب سے غائبانہ، ہائے دل
اٹھ رہا ہے دل میں اک طوفانِ غم، اک انقلاب
کیا یہی تھا میرا عشقِ والہانہ، ہائے دل؟
کوئی منزل، کوئی رستہ اب نظر آتا نہیں
کیا کرے، اب کیا بنے میرا فسانہ، ہائے دل
تیری بے مہری کا میں بھی کوئی شکوہ نہ کروں
پر تیری دنیا کا ہے کیا بزمِ شاعرانہ، ہائے دل
اے ندیم! یہ عشق و وفا کا جو قصہ تھا
ہو گیا یوں ہی سرِ بزمِ جانانہ، ہائے دل

0
6