| ہمارے ہاتھوں میں تم کو ایسی گھڑی ملے گی |
| جو وقتِ رخصت پہ ہی ہمیشہ کھڑی ملے گی |
| جلیں گے شب بھر ہوس کی آتش میں دو بدن ، پھر |
| کسی کو کچرے میں اک محبت پڑی ملے گی |
| پتہ خوشی کا میں جانتا ہوں ، تمہیں بتاؤں؟ |
| فلانے جنگل میں جاؤ اک جھونپڑی ملے گی |
| مجھے یقیں ہے کہ لوٹ آئیں گے رنگ اس کے |
| سخن کی تتلی کو جب تری پنکھڑی ملے گی |
| یہ گریہ زاری ہے قہقہوں کی زیادتی سے |
| ہر ایک آنسو کے پیچھے اک پھلجھڑی ملے گی |
| یہ شہرِ ظلمت ہے اس میں لہجے کو پست رکھنا |
| بلند آواز کے عوض ہتھکڑی ملے گی |
| تمام قاضی بِکے ہوئے ہیں میں جانتا ہوں |
| سزا خطا کے مقابلے میں بڑی ملے گی |
| دعا کسی پیر زادی کی ہے مرے سخن کو |
| ہر ایک رُت میں ہری تمہیں یہ لڑی ملے گی |
| کھلے گا رازِ گریز پائی قمرؔ کسی کا |
| ادھوری باتوں کی جب کڑی سے کڑی ملے گی |
معلومات