| منعکس ہو حالِ دل وہ آئینہ ملتا نہیں |
| کوئی منزل کیا ملے جب راستہ ملتا نہیں |
| اک خلوصِ دل کے اس دُنیا میں کیا ملتا نہیں |
| بندگی ملتی نہیں ہے یا خدا ملتا نہیں |
| منتشر شیرازہٴ ہستی ہوا ہے اس قدر |
| میری اُلفت کا جنوں سے سلسلہ ملتا نہیں |
| کھو گئی گردِ سفر میں زندگی کی کائنات |
| اب زمین ملتی نہیں ہے، آسمان ملتا نہیں |
| ہو گئے اپنے بھی اب مطلب پرستی کے شکار |
| لاکھ اپنا دل دکھائیں کچھ صلہ ملتا نہیں |
| کہنے والے ہیں بہت شاعرمگر کیا کیجیے |
| اہلِ فن، اہلِ نظر سے حوصلہ ملتا نہیں |
معلومات