| ہمیں کچھ دیر تو پلکوں پہ تم ٹھہرا ہی لیتے ہو |
| کہ جب جانا ہے تو رو کر ہمیں رخصت ہی دیتے ہو |
| نہ وعدے ہیں، نہ قسمیں ہیں، نہ باقی جستجو کوئی |
| فقط لب پر مرے نامِ محبت ہی دیتے ہو |
| یہ کیسی بے رخی ہے دل میں اب تم سوچتے کیا ہو؟ |
| مرے ہو کر بھی اب تم اجنبی صورت ہی دیتے ہو |
| کسی در پر سسکنا، بے بسی سے ٹوٹ کر مرنا |
| مجھے اس سے زیادہ اب تم کیا صورت ہی دیتے ہو؟ |
| کبھی تو سوچ لیتے کاش، دل میں کیا گزرتی ہے |
| زباں سے ہی نہیں، آنکھوں سے بھی وحشت ہی دیتے ہو |
| یہ تنہائی، یہ خاموشی، یہ بے چینی، یہ ویرانی |
| ہمیں تم کیا محبت کی یہی قیمت ہی دیتے ہو؟ |
| ہمارے زخم، جن کو اب نئی پہچان ملی ہے |
| انہیں کیوں بھولنے کی ایک اور راحت ہی دیتے ہو؟ |
| ہر ایک رستے پہ میری ذات کا سایہ بھٹکتا ہے |
| تمہیں شاید اسی میں کوئی آسودگی دیتے ہو؟ |
| بچھڑنے کا نہیں غم، غم تو ہے یہ دیکھ کر مجھ کو |
| کہ تم اب میری یادوں کو بھی گنجلک ہی دیتے ہو |
| ندیم اب لوٹ کر آنے کا کوئی راستہ ہی نہیں |
| چلو اچھا ہے، اب مجھ کو مکمل چھٹّی دیتے ہو |
معلومات