بے سبب خود کو کیوں تھکاتے ہیں
ہم تو کہتے ہیں ٹہر جاتے ہیں
جو بنے عشق کے ہیں دعویدار
دشت میں زندگی گنواتے ہیں
عشق کرنا سزا ہو جاتا ہے
روکنا اس لئے تو چاہتے ہیں
رنج و غم درد سہنا پڑتا ہے
ہجر کے روگ بس رہ جاتے ہیں
عشق کے نام پر ہے جنس گرم
بے وجہ آپ دھوکہ کھاتے ہیں
سچے انسان کی ہے قدر کہاں
جھوٹ کے ہاتھ دھوکہ پاتے ہیں
ہائے اس راہ میں ذیشان اکثر
لوگ کیا کیا فریب کھاتے ہیں

113