مجھ کو ملی ہے کیسی یہ بے کیف زندگی
کس سے کروں میں پیار، نہیں کوئی آدمی
اب تو ہے یار مجھ سے محبت بھی چِھن گئی
اب میں کہاں سے لاؤں وہ پہلی سی تازگی
بیٹھی ہے سامنے جو دغا باز چھوکری
ہاں یار غمزدہ ہے وہ، دکھ ہے مجھے یہی
میں نے تمام عمر ہے خدمت تمہاری کی
اک کربناک سی یہ دہائی تھی ماں نے دی
عثمان تم نے ظلم کیاتھا ضمیر پر
اب کچھ نہ کر تو شکوہ ،بس اپنے لبوں کو سی

0
88