| تیری جفا کا غم ہے مگر اتنا غم نہیں |
| مر جائیں تیرے واسطے پاگل تو ہم نہیں |
| عشق و جنوں میں حوصلہ مجنوں سے کم نہیں |
| صحرا کی مشتِ خاک سے گھبراتے ہم نہیں |
| دستِ رقیب میں دیے اس نے بدن کے خم |
| چھو پائے ہم تو ریشمی زلفوں کے خم نہیں |
| آنکھوں میں بھر کے لایا تھا منظر جو دیس کے |
| پردیس کے خرابوں میں جنت سے کم نہیں |
| چکھی ہے اُس نے جب سے مرے عشق کی مٹھاس |
| امرت سا اب زباں میں هے پہلے سا سَم نہیں |
| نفرت ، دغا ، فریب ، جفا ، آشنائیاں |
| کیا کیا ستم شعار نے توڑے ستم نہیں |
| لکھیں گے شعر شعر میں جرمِ جفا ترا |
| دل ہے دو لخت ، ہاتھ ہمارے قلم نہیں |
| خنجر جفا کا سینے میں میرے اُتار کر |
| آیا ذرا بھی چشمِ ستمگر میں نم نہیں |
| جَور و جفا سحاب پر ڈھائے وہ روز و شب |
| بُھولے سے بھی عنایتِ لطف و کرم نہیں. |
معلومات