| لگا ہے شوق ہم کو بھی، کِسی سے آشنائی کا |
| نہ جانے کب کو دیتے ہیں، وہ رَستہ بھی رَسائی کا |
| بنا ڈالے یہ بحر و بر، مکان و لامکاں سارے |
| کِسی کو شوق کتنا تھا، وہ اپنی خُود نمائی کا |
| بُرا ہوں میں زمانے سے، غلاظت کا کنارا ہوں |
| مُجھے ڈر ہے وہ مانگیں گے، ہاں نامہ پارسائی کا |
| مِرے نامہ پہ لکّھا تھا، بڑے ہی بے وفا ہو تم |
| بنے گا حشر میں کیا کیا، گُناہِ بے وفائی کا |
| مِرا مالک تو ایسا ہے، نہ کوئی اُس کے جیسا ہے |
| حیا بس وہ ہی رکھتا ہے، جو میری بے حیائی کا |
| جُنوں کی آگ سے میں نے، جلایا ہے یہ دل اپنا |
| یہی کاری طریقہ ہے، مِرے دل کی صفائی کا |
| دَمِ رُخصت، مِٹِی فرقت، مِلی ہم کو تِری اُلفت |
| بیاں کیسے کروں رُتبہ، تِرے در کی گدائی کا |
معلومات