یہ کس رستے پہ چلتا جا رہا ہوں!
نہ منزل ہے، نہ گھر کا جانتا ہوں!
کوئی آہٹ نہیں ہے اب یہاں پر!
کہاں اپنے، کہاں پر میں کھڑا ہوں!
میرے دل کا سکوں برباد کیوں ہے!
یہ کس دنیا کے ہنگامے میں پڑا ہوں!
مرا خود سے ہی اب جھگڑا ہوا ہے!
کسے روکو کہ کس سے لڑ رہا ہوں!
بتا دو مجھ کو دنیا کو بتا کر!
میں کس مجبوری سے تجھ سے خفا ہوں!
مجھے پہچانتا ہی کیوں نہیں کوئی!
میں اب بھی تو وہی شیشہ نما ہوں!
میں خود اپنے ہی چہرے میں چھپا ہوں!
میں کب سے اپنی ذات سے جُدا ہوں!
یہ ندیمؔ اس کا فتنہ ہے کہ اب میں!
اپنے ہی آپ کی نظروں میں کھڑا ہوں!

0
4