اے مری عمرِرواں بچپن میں چل
خوبصورت تھا سماں بچپن میں چل
گود میں ماں کی مجھے تُو ڈال دے
چین ملتا تھا جہاں بچپن میں چل
باپ کی اُنگلی کو پھر میں تھام لُوں
ڈھونڈتا ہُوں سائباں بچپن میں چل
تب بہاریں کس قدر جوبن پہ تھیں
اب تو چھائی ہے خزاں بچپن میں چل
بھول جاتے تلخ باتیں آن میں
اب وُہی گزریں گِراں بچپن میں چل
یاد آتے ہیں دَر و دیوار سب
مٹ گئے اُن کے نِشاں بچپن میں چل
موت کی آغوش میں جو سو گئے
اُن پہ رب ہو مہرباں بچپن میں چل
اس سے پہلے کہ پھٹے زیرکؔ تِرے
دل کا وہ آتِش فِشاں بچپن میں چل

0
6