شیشے کے بنے دیر و حرم ٹوٹ رہے ہیں
کم ظرف شریفوں کے بھرم ٹوٹ رہے ہیں
شہرت ہو کہ قوت ہو ، حکومت ہو کہ دولت
ہاتھوں سے ممولوں کے علم ٹوٹ رہے ہیں
صحرا کے مسافر تجھے معلوم نہیں ہے
وحشت میں سرابوں کے قدم ٹوٹ رہے ہیں
تھا جن پہ یقیں دیکھ ہمیں حد سے زیادہ
لفظوں سے سجے بت وہ قلم ٹوٹ رہے ہیں
ہر روز بدلتی ہیں کئی رنگ بہاریں
دستار بچاتے ہوئے دم ٹوٹ رہے ہیں
ہم جن کی امیدوں میں جیا کرتے تھے شاہد
وہ سامنے آنکھوں کے صنم ٹوٹ رہے ہیں

0
41