| ۔۔۔۔۔ غزل ۔۔۔۔۔ |
| دشتِ ہجراں میں چراغوں کو جلانے کے لیے |
| ہم بھی بیٹھے ہیں ہواؤں کو منانے کے لیے |
| عشق محوِ سفر و عقل بہانے در دست |
| کوئی تدبیر نہیں راہ میں آنے کے لیے |
| کافی و قہوۂ تلخی میں تری یاد آئی |
| چند لمحے ہی ملے زخم سُلانے کے لیے |
| یک نظر سوخت میرا، دو نظر افسانہ |
| زندگی کم تھی ترے در پہ تو آنے کے لیے |
| عشق دیوانہ، خرد دست بہ لب خاموش است |
| کون آیا ہے مجھے پھر سے ستانے کے لیے |
| جام و میخانہ و ساقی بھی خفا ہیں مجھ سے |
| میں جو نکلا تھا فقط زہر پلانے کے لیے |
| ہم نفس کوئی نہ تھا راہِ طلب میں شائم ؔ |
| کون آیا ہے یہ ویرانے سجانے کے لیے؟ |
| شائم ؔ |
معلومات