| کیا بتاؤں تجھے اس دہر میں کیا کیا دیکھا |
| میں نے انسان میں حیوان کا چہرہ دیکھا |
| باپ کو بھوک کی شدت سے تڑپتا دیکھا |
| اور بیٹے کو نمائش میں مچلتا دیکھا |
| یہ بھی دیکھا کہیں شادی کےلیےپیسہ نہیں |
| اور کہیں ایک میں بے انتہا خرچہ دیکھا |
| اس گھڑی ملک کی سرکار پہ رونا آیا |
| خود کشی کر کے جو مزدور کو مرتا دیکھا |
| نیچ افکار و خیالات کا پایا اس کو |
| جس کے دربار و در و بام کو اونچا دیکھا |
| یہ بھی دیکھا جہاں سچوں کو ملی رسوائی |
| وہیں کذاب کے ہر ہاتھ میں تمغہ دیکھا |
| آج مسجد ہو کہ ہو مدرسہ یا در گہِ پیر |
| میں نے ہر ایک پہ شیطان کا قبضہ دیکھا |
| عدلِ دنیا سے یقیں اُٹھ گیا اس دَم،جس دَم |
| جج کو پیسوں کے لیے پل میں بدلتا دیکھا |
| دشمنِ دہر کی کیا بات کروں یار یہاں |
| بھائی کی جان کوخودبھائی سےخطرہ دیکھا |
| ملک میں جتنی بھی ہے کرسیِ عالی احمد |
| میں نے ہر ایک پہ مکار کو بیٹھا دیکھا |
| غلام احمد رضا نیپالی |
معلومات