کہاں جا رہے ہو! بڑھے سوئے پستی
کہ بیدار ہو جاؤ چھوڑو یہ مستی
مقامات اوج و ثریا کو چھوڑا
بلندی سے رخ اپنا پستی میں موڑا
رہے نام کے اب ہیں ہم بس مسلماں
نہ اسلاف سا اب رہا ہم میں ایماں
وہ غازی تھے مسکن تھا صحرا نوردی
سفر میں ہی کٹتی تھی گرمی کہ سردی
سکون اور آرام کے ہم ہیں پالے
نہیں ہم میں باقی رہے وہ جیالے
شریعت کے سچے اصولوں کو چھوڑا
خدا اور نبی سے تعلق ہے توڑا
رہیں کب تلک ہم یونہی بے ڈگر
خدا کے لئے لوٹ جائیں چلو گھر
نجات اور بخشش کی مانگیں دعائیں
تڑپ کر ہم اپنے خدا کو منائیں
شب و روز بخشش کا، مہمان لایا
خدا کا پسندیدہ رمضان آیا

0
1
97
بمعنی و خیال آفریں کلام!

0