| فکرِ فردا کو پال بیٹھا ہوں |
| میں جو شوریدہ حال بیٹھا ہوں |
| جو بھی قسمت میں ہوگا سو ہوگا |
| میں تو سکہ اُچھال بیٹھا ہوں |
| اب تو دشمن بھی پیارے لگتے ہیں |
| دل سے نفرت نکال بیٹھا ہوں |
| کانچ والوں کو خوف ہو نہ کوئی |
| موم میں خود کو ڈھال بیٹھا ہوں |
| آج خود کو جواب دینا ہے |
| خود سے کر کے سوال بیٹھا ہوں |
| غمِ ہجراں رہائی دے دے تُو |
| شوقِ حسرت وصال بیٹھا ہوں |
| یاد کی لَو سے میں قسم شائم |
| شبِ تِیرہ اُجال بیٹھا ہوں |
معلومات