در پہ آنے لگے طلب والے
دوست بننے لگے سبب والے
علم والے نظر نہیں آتے
مل رہے ہیں سبھی لقب والے
اس سے بڑھ کر کےکیا قیامت ہو
بے ادب ہوگئے ادب والے
رہزنِ قوم و ملک و ملت ہیں
سارے مسند نشین اب والے
آج دنیا میں کھوئے بیٹھے ہیں
کل جو کہتےتھے ہم ہیں رب والے
اب تو مشغولِ کارِ محقر ہیں
اونچے اونچے حسب نسب والے
شب سے جلتا ہے صبح کا سورج
دن سےجلتےہیں ماہ و شب والے
اُن کو طعنے ہزار ملتے ہیں
اکّا دکّا جہاں ہیں ڈھب والے
صاحبِ عشق فتح یاب ہوا
مات کھائے سبھی غضب والے
ہم کسے درد اپنا دکھلائیں
جب کہ دلگیر ہیں مطب والے
آج بھی دیکھیے تو لگتے ہیں
ناز و فخرِ سخن عرب والے
اُس کی تمثیل ہی نہیں احمد
کام جو کر گئے عقب والے
غلام احمد رضا نیپالی

166