نہ کوئی آس باقی ہے نہ اب کوئی سہارا ہے
فقط اس دل میں تیرا نام ہی پیارے ہمارا ہے
عجب ہے حال اپنا بھی ترے کوچے میں دیوانو
کہ جیسے موج کو ساحل کا بس اک اِک اشارا ہے
چلے جب سے وہ محفل سے ہوئی ویران ہر شے ہے
فضا بھی سوگ میں ڈوبی، فلک بھی اک نظارا ہے
کبھی تو آ کے دیکھو حال اس مجنوں کا تم جاناں
تمہاری یاد میں جس نے سکوں اپنا گوارا ہے
نہیں پروا زمانے کی نہیں دنیا کا اب ڈر ہے
جو تیرے سنگ جینا ہے، یہی اپنا خسارا ہے
جدائی کی گھڑی آئی، لرزتا ہے بدن سارا
یہ کیسی آگ ہے دل میں، یہ کیسا استعارا ہے
وفا کے نام پر ہم نے لٹا دی زندگی اپنی
محبت کا یہی حاصل، یہی اپنا گزارا ہے
ہزاروں غم سہے ہم نے تری خاطر مگر پھر بھی
لبوں پر مسکراہٹ ہے، یہ جھوٹا اک سہارا ہے
نہیں اب طاقتِ گفتار ہم میں، چپ ہیں بس لوگو
کہ دل کا ہر اِک احساس آنکھ سے بس پکارا ہے
غمِ ہجراں سے اب بس ہو، بہت تڑپا چکا، دیکھو
'ندیم' اب جاں بلب ہے اور وہ تنہا بیچارا ہے

0
3